Corrupt son of a traitorous father in Pakistan
Corrupt son of a traitorous father
Remember that history does not lie.
By 1946, the demand for the establishment of Pakistan had become a reality that neither the British nor the Congress could change. Now the emphasis was on how to prevent as many areas as possible from becoming part of Pakistan.
Until then, there were some areas where, although Muslim-majority, their decision to join Pakistan was linked to the referendum. These areas included Sylhet in East Bengal and present-day Khyber Pakhtunkhwa and Balochistan in Pakistan.
In Sylhet and Khyber Pakhtunkhwa, it was decided to hold a referendum in which the majority of the people preferred to join Pakistan. In Balochistan, however, the whites refused to adopt this principle, as the British wanted Balochistan to remain independent so that immediately after the withdrawal from the subcontinent, the British could transfer their governance there and then sit there and gradually regain control of the region. Therefore, instead of a public referendum in Balochistan, the decision was announced on the basis of a majority vote of the royal jirga there.
This was a very sensitive issue. If the Royal Jirga had refused to accede to Pakistan, Pakistan's geographical position would have been very weak.
Learn about the royal jirga. Some areas of Balochistan including Quetta and Pashtun were under British rule, but other areas including Kalat, Kharan, Makran and Lasbela were liberated. To run the affairs of Balochistan, the British had set up a jirga consisting of the tribal chiefs of these areas called the Shahi Jirga, which was chaired by the Agent to the Governor General of British India and was generally considered loyal to the British.
When the issue of Pakistan's accession was decided to go to the royal jirga, the Congress and the British were satisfied that the majority decision of the jirga would be in their favor. This situation was not acceptable to some tribal leaders because they wanted to join Pakistan.
At that time, Nawab Muhammad Khan Jogezai, the head of the Kakar tribe, stepped forward and joined his like-minded tribal leaders in launching a campaign in favor of Pakistan. On the other hand, Abdul Samad Achakzai Babahang Dahal came out in support of the Congress and started lobbying against the establishment of Pakistan.
Mir Jaffer Khan Jamali of Jamali tribe came forward to support Nawab Jogezai and he also started a campaign in favor of Pakistan.
On the other hand, Abdul Samad Achakzai started telling the jirga leaders that if they did not go with Pakistan, the Indian government would immediately give the jirga Rs. 180 million in cash and Rs. 4.5 crore annually as support fund. Hearing such an attractive offer, the decision of many chiefs could be shaken, so Nawab Jogezai and Jamali started a full-fledged campaign and went to each chief and started recommending to vote for the establishment of Pakistan.
At a time when people like Nawab Jogezai, Jamali and Naseem Hijazi were trying to persuade the members of the royal jirga for Pakistan, the provincial president of the Muslim League Balochistan appealed to the president of the royal jirga, Agent to Governor General, that the royal jirga The chiefs of Kalat, Kakar and Jamali tribes should be expelled from the state. This demand was astonishing, because if these chiefs had been expelled, then there would have been no one left to vote for the establishment of Pakistan.
The referendum was scheduled for June 29, and by then Nawab Jogezai had garnered significant support. But to review the Balochistan Muslim League's provincial president's request, the royal jirga president announced on the night of June 28 that only the viceroy's message would be read out at the June 29 meeting, and the vote would be cast on July 3. The aim was to change the composition of the jirga within the next few days.
Nawab Jogezai, Naseem Hijazi and Jamali had heard of the conspiracy, so they decided that as soon as they read the viceroy's message the next day, all the tribal chiefs would stand up and announce their joining Pakistan.
The next day, June 29, the meeting began, the viceroy's message was read, and soon after, the chiefs of the Jogezai, Jamali, Kakar, and other tribes stood up and announced that they wanted to join Pakistan.
When more than 40 chiefs made this announcement in the 65th jirga, then the significance of the July 3 meeting was lost and thus Balochistan became a part of Pakistan by the grace of Allah.
Would you like to know who was the provincial president of the Muslim League Balochistan who recommended the expulsion of pro-Pakistan chiefs from the royal jirga?
His name was Qazi Issa who is the father of the current Supreme Court Judge Qazi Faiz Issa. Yes, the same Qazi Faiz Issa who is said to be the son of the son of Tehreek-e-Pakistan, in fact Qazi Issa was a selfish, altruistic man who jeopardized the whole of Balochistan because of his personal ambitions. Was
The events described above are part of history. I invite you to research from wherever you want, these events will be found word for word.
Today, the parties that are making Qazi Faiz Issa their father, the majority of those parties were against the establishment of Pakistan, including the Jamaat-e-Islami, JUI and separatist parties.
Finally, salutations to the Baloch leaders who in 1947 turned down millions of offers and decided to join Pakistan.
Qazi Isa is not even equal to the dust of these Baloch and Pakhtun leaders !!!
Movable
Book: Quaid-e-Azam as Governor General
☆☆ غدار باپ کا کرپٹ بیٹا ☆☆
یاد رہے کہ تاریخ جھوٹ نہیں بولتی۔
1946 تک قیام پاکستان کا مطالبہ ایک حقیقت بن چکا تھا جسے نہ تو انگریز بدل سکتے تھے اور نہ ہی کانگریس۔ اب سارا زور اس بات پر تھا کہ کس طرح زیادہ سے زیادہ علاقوں کو پاکستان کا حصہ بننے سے روکا جاسکے۔
اس وقت تک کچھ علاقے ایسے تھے جہاں اگرچہ مسلمانوں کی اکثریت تھی لیکن ان کی پاکستان میں شمولیت کے فیصلے کو ریفرینڈم سے جوڑ دیا گیا۔ ان علاقوں میں مشرقی بنگال کا سلہٹ اور موجودہ پاکستان کا خیبرپختون خوا اور بلوچستان کے علاقے شامل تھے۔
سلہٹ اور خیبرپختون خوا میں تو عوامی ریفرینڈم کروانے کا فیصلہ کیا گیا جس میں عوام کی اکثریت نے پاکستان کے ساتھ الحاق کو ترجیح دی۔ بلوچستان میں البتہ گوروں نے یہ اصول اپنانے سے انکار کردیا، کیونکہ انگریز چاہتا تھا کہ بلوچستان آزاد حیثیت میں قائم رہے تاکہ برصغیر سے انخلا کے فوری بعد انگریز اپنی گورننس وہاں منتقل کردے اور پھر وہاں بیٹھ کر بتدریج خطے کا کنٹرول دوبارہ حاصل کرسکے۔ چنانچہ بلوچستان میں عوامی ریفرنڈم کی بجائے وہاں کے شاہی جرگے کے اکثریتی ووٹ کی بنا پر فیصلہ کرنے کا اعلان کردیا گیا۔
یہ نہایت حساس معاملہ تھا، اگر شاہی جرگہ الحاق پاکستان سے انکار کردیتا تو پاکستان کی جغرافیائی پوزیشن بہت کمزور ہوجاتی۔
شاہی جرگے کے متعلق جان لیں۔ بلوچستان کے کچھ علاقے بشمول کوئٹہ، پشتین تو برطانوی ریاست کے زیرانتظام تھے، لیکن دوسرے علاقے بشمول ریاست قلات، ریاست خاران، ریاست مکران، ریاست لسبیلہ وغیرہ آزاد ہوا کرتے تھے۔ بلوچستان کے معاملات چلانے کیلئے انگریز نے ان علاقوں کے قبائلی سرداروں پر مشتمل ایک جرگہ بنا رکھا تھا جسے شاہی جرگہ کہا جاتا تھا جس کا صدر ایجنٹ ٹو گورنر جنرل آف برٹش انڈیا ہوتا تھا اور عام طور پر انگریز کا وفادار سمجھا جاتا تھا۔
جب الحاق پاکستان کا معاملہ شاہی جرگہ میں جانے کا فیصلہ ہوا تو کانگریس اور انگریزوں کو اطمینان ہوچکا تھا کہ جرگے کا اکثریتی فیصلہ ان کی مرضی کے مطابق آئے گا۔ یہ صورتحال چند قبائلی لیڈروں کیلئے قابل قبول نہ تھی کیونکہ وہ پاکستان کے ساتھ الحاق چاہتے تھے۔
اس وقت کاکڑ قبیلے کے سربراہ نواب محمد خان جوگیزئی آگے بڑھے اور انہوں نے اپنے ہم خیال قبائلی لیڈروں کو ساتھ ملا کر پاکستان کے حق میں مہم شروع کردی۔ دوسری طرف عبدالصمد اچکزئی بباہنگ دہل کانگریس کی حمایت میں سامنے آگئے اور قیام پاکستان کی مخالفت کرتے ہوئے لابنگ شروع کردی۔
نواب جوگیزئی کا ساتھ دینے کیلئے جمالی قبیلے کے میر جعفر خان جمالی آگے آئے اور انہوں نے بھی پاکستان کے حق میں کیمپین شروع کردی۔
دوسری طرف عبدالصمد اچکزئی نے جرگہ کے سرداروں سے کہنا شروع کردیا کہ اگر پاکستان کے ساتھ نہیں جاتے تو ہندوستان کی حکومت جرگہ کو فی الفور 18 کروڑ روپے نقد اور سالانہ ساڑھے چار کروڑ روپے بطور سپورٹ فنڈ دیا کرے گی۔ اتنی پرکشش آفر سن کر بہت سے سرداروں کا فیصلہ ڈگمگا سکتا تھا، چنانچہ نواب جوگیزئی اور جمالی نے بھرپور کیمپین شروع کی اور ہر سردار کے پاس جاکر قیام پاکستان کے حق میں ووٹ دینے کی سفارش کرنا شروع کردی۔
جس وقت نواب جوگیزئی، جمالی اور نسیم حجازی جیسے لوگ شاہی جرگہ کے اراکین کو پاکستان کیلئے قائل کرنے کی کوشش کررہے تھے، عین اسی وقت مسلم لیگ بلوچستان کے صوبائی صدر نے شاہی جرگہ کے صدر، ایجنٹ ٹو گورنر جنرل سے اپیل کی کہ شاہی جرگہ سے قلات، کاکڑ اور جمالی قبائل کے سرداروں کو نکال دیا جائے۔ یہ مطالبہ حیران کن تھا، کیونکہ اگر ان سرداروں کو نکال دیا جاتا تو پھر قیام پاکستان کے حق میں ووٹ ڈالنے والا کوئی نہ رہتا۔
ریفرینڈم کی تاریخ 29 جون کو طے ہوئی تھی اور اس وقت تک نواب جوگیزئی اپنے ساتھ اچھی خاصی حمایت اکٹھی کرچکے تھے۔ لیکن بلوچستان مسلم لیگ کے صوبائی صدر کی درخواست کا جائزہ لینے کیلئے شاہی جرگہ صدر نے 28 جون کی رات اعلان کردیا کہ 29 جون کے اجلاس میں صرف وائسرائے کا پیغام پڑھ کر سنایا جائے گا، اور ووٹ 3 جولائی کو ڈالا جائے گا۔ اس کا مقصد یہ تھا کہ اگلے چند دنوں کے اندر جرگہ کی کمپوزیشن تبدیل کی جاسکے۔
نواب جوگیزئی، نسیم حجازی اور جمالی کو سازش کی بھنک پڑچکی تھی، چنانچہ انہوں نے فیصلہ کیا کہ اگلے دن وائسرائے کا پیغام پڑھنے کے فوراً سب قبائلی سردار کھڑے ہوکر پاکستان میں شمولیت کا اعلان کردیں گے۔
اگلے دن 29 جون کو اجلاس شروع ہوا، وائسرائے کا پیغام پڑھا گیا اور اس کے فوراً بعد جوگیزئی، جمالی، کاکڑ اور دوسرے قبائل کے سرداران اپنی جگہ سے کھڑے ہوئے اور اعلان کردیا کہ وہ پاکستان میں شمولیت چاہتے ہیں۔
65 کے جرگے میں 40 سے زائد سرداران نے جب یہ اعلان کردیا تو پھر 3 جولائی کے اجلاس کی اہمیت ختم ہوگئی اور یوں بلوچستان اللہ کی مہربانی سے پاکستان کا حصہ بن گیا۔
جاننا چاہیں گے کہ مسلم لیگ بلوچستان کا صوبائی صدر کون تھا جس نے شاہی جرگہ سے پاکستان کے حامی سرداروں کو نکالنے کی سفارش کی؟
اس کا نام قاضی عیسیٰ تھا جو کہ سپریم کورٹ کے موجودہ جج قاضی فائز عیسی کا باپ ہے۔ جی ہاں، وہی قاضی فائز عیسیٰ کہ جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ تحریک پاکستان کے فرزند کا بیٹا ہے، درحقیقت قاضی عیسیٰ ایک خودپسند، اناپرست شخص تھا جس نے اپنی ذاتی خواہشات کی وجہ سے پورے بلوچستان کی شمولیت خطرے میں ڈال دی تھی۔
اوپر بیان کئے گئے واقعات تاریخ کا حصہ ہیں۔ میں آپ کو دعوت دیتا ہوں کہ جہاں سے مرضی ریسرچ کرلیں، یہ واقعات حرف بحرف درست ملیں گے۔
آج جو جماعتیں قاضی فائز عیسیٰ کو اپنا ابو بنا رہی ہیں، ان جماعتوں کی اکثریت قیام پاکستان کی مخالف تھی جن میں جماعت اسلامی، جے یو آئی اور علیحدگی پسند جماعتیں شامل ہیں۔
آخر میں سلام ان بلوچ لیڈروں کو، جنہوں نے 1947 میں کروڑوں کی آفرز ٹھکرا کر پاکستان میں شمولیت کا فیصلہ کیا۔
قاضی عیسیٰ ان بلوچ اور پختون لیڈروں کی دھول کے برابر بھی نہیں!!!
منقول
کتاب:قائد اعظم بحیثیت گورنر جرنل
Very nice
ReplyDeleteZbrdst bhai
ReplyDeleteSach hy
ReplyDelete